اغیار کو دکھاؤ نہ اَنداز چال کا
از : علامہ حسن رضا بریلوی
پیش کردہ: ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی
اغیار کو دکھاؤ نہ اَنداز چال کا
پِس جائے دل کہیں نہ کسی پائمال کا
شکلِ کلیم ہم کو بھی بے ہوش کیجیے
آئینہ بھیج دیجیے اپنے جمال کا
اُس گل کی بُو سمائی ہے میرے دماغ میں
پھولوں کی ہے چنگیر مرقع خیال کا
خوابِ عدم سے چونک پڑے خفتگانِ خاک
کیا شورِ صُور میں ہے اَثر تیری چال کا
کُنہِ شکست آئینۂ دل عیاں کریں
کہیے تو پوست کھینچ لیں شیشہ کے بال کا
سب صورتوں میں جلوہ گری ایک ہی کی ہے
نقشہ جما ہوا ہے کسی کے جمال کا
ساقی خمارِ ہجر کی شدت سے غش ہوں میں
چھینٹا دے منہ پر اب تو شرابِ وصال کا
سنگِ غمِ فراق سے دل پر لگا نہ چوٹ
آئینہ ٹوٹ جائے گا تیرے جمال کا
جلوہ کسی حسین کا ہے دل کی آرزو
تصویر ڈھونڈتا ہے مرقع خیال کا
بیٹھے ہیں ہم بھی خرمنِ ہوش و خرد لیے
یا رب اِدھر بھی وار ہو برقِ جمال کا
پامالِ رشک کیجیے حسینانِ دہر کو
پا پوش میں لگائیے کنٹھا ہلال کا
پہنچوں میں روضۂ شہ والا پر اے حسنؔ
اُمید وار ہوں کرمِ ذوالجلال کا
Post a Comment