چلا آیا کلیجا تھامے تجھ سا فتنہ گر دیکھا
چلا آیا کلیجا تھامے تجھ سا فتنہ گر دیکھا
دعا میں ہم سے مظلوموں کی ظالم کچھ اَثر دیکھا
دعا میں ہم سے مظلوموں کی ظالم کچھ اَثر دیکھا
خفا کیوں ہو گئے کس واسطے آنکھیں چُراتے ہو
خطا کیا ہو گئی تم کو اگر آدھی نظر دیکھا
ستم یہ دشمنوں پر ہوں اُٹھائیں وہ تو ہم جانیں
ذرا اُن کا بھی دل دیکھو ہمارا تو جگر دیکھا
عجب سکتے کی صورت ہے غضب حیرت کا عالم ہے
خبر کیا آئنہ نے آج کیا وقت سحر دیکھا
لیے تو جاؤں اُس کی بزم میں اے دل مگر ڈر ہے
میں رو بیٹھوں گا تجھ کو اُس نے جب ہنس کر اِدھر دیکھا
گرے پڑتے ہیں آنسو دل ہوا جاتا ہے بے قابو
خدا سمجھے پھر اُن کم بخت آنکھوں نے اِدھر دیکھا
یوہیں کیف تجلی ہم اُٹھا کر دل کو سمجھا لیں
ہم اس کو دیکھ لیں جس نے تجھے آدھی نظر دیکھا
دلِ مشتاق کس کی یاد ہے کس کا تصور ہے
جو تو نے اِس قدر حسرت سے رُخسارِ قمر دیکھا
بیانِ مرگِ عاشق سن کے وہ دشمن سے کہتے ہیں
بلانے کو مرے اُس نے اُڑائی کیا خبر دیکھا
سنا تھا مرگِ عاشق کھینچ لاتی ہے جنازہ پر
نہ آیا نعش پر بھی وہ ستم گر ہم نے مر دیکھا
کسی رہرو پر آ جانا طبیعت کا قیامت ہے
نہ اُس کے نام ہی سے واقفیت ہے نہ گھر دیکھا
وہ جلوے اُس نے دیکھے ہیں نہ دیکھے جو ملائک نے
کہاں پہنچا کسے دیکھا حسنؔ اوجِ بشر دیکھا
Post a Comment